He was the son of Meer Husain Nigar. He would belong to Delhi and was one of the close disciples of Ghalib. During the turbulent period of 1857, he was forced to move to Panipat and Alwar. However, his last days were quite peaceful. His deewan was published in 1898 under the pen name Mazhar Maa’ni. The language of his poetry has simple use of phraces, but sometimes it does get complicated. His poetry is mature, though not fresh and modern.
voice: Jauhar Abbas
Presentation: Saeed Jafri
MIRZA GHALIB'S LETTER TO MEER MEHDI MAJROOH
خط مرزا غالبؔ بنام میر مہدی مجروح
میاں،
تم کو پنسن کی کیا جلدی ہے، ہر بار پنسن کو کیوں پوچھتےہو، پنسن جاری ہواور میں تم کو اطلاع نہ دوں؟ ابھی تک کچھ حکم نہیں۔ دیکھوں، کیا حکم ہو اور کب ہو؟ میرن صاحب جے پور پہنچے، تم شاہ پور ہی بتاتے ہو۔ شاید سچ یہی ہو۔ ہاں میر محمود علی اور یہ، بیربر اور ابوالفضل تو تھے ، مگر دیکھا چاہیے درخت جگہ سے اُکھڑ کر بدشواری جمتا ہے۔ خلاصہ میری فکر کا یہ ہے کہ اب بچھڑے ہوئے یار کہیں قیامت ہی کو جمع ہوں تو ہوں۔ سو وہاں کیا خاک جمع ہوں گے۔ سُنی الگ، شیعہ الگ، نیک جُدا، بد جُدا۔ میر سرفراز حسین کو دعا، میر نصیر الدین کو پہلے بندگی، پھر دعا۔ کتاب کا نام "دستنبو" رکھا گیا۔ آگرے میں چھاپی جاتی ہے۔ تم سے تمھارے ہاتھ کے اوراق لکھے لوں گا۔ تب ایک کتاب تم کو دوں گا۔
روز ورودِ نامہ۔ پنجشنبہ 7۔اکتوبر 1858ء از غالبؔ